کستوری فارسی میں مُشک،سندھی میں مٙشک،بنگالی میں مرگ بابھ،برمی میں کیڈو انگریزی میں مسک،لاطینی میں ماسکس اور ہماری مہاجری میں نافہ کھُسبو کہتے ہیں😉
کستوری کس کس جانور سے حاصل ہوتی ہے۔
کستوری ہرن یا ڈریکولا ہرن1
یہ پانی میں پایا جانے والا بجو کی نسل کا ایک جانور ہے جوکہ گوشت خور ہے۔
3۔مُشک بلااؤ
کستوری دانے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔ انہیں مختلف عرقوں میں ملا کر انتہائی مہنگے عطر تیار کیے جاتے ہیں ۔ حکمت میں کستوری سے بہت سے نسخےبھی تیار کیے جاتے ہیں ۔جو مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔
1 گرام کستوری کی قیمت 15 ہزار روپے کے قریب ہے۔ایک ہرن سے 30 سے 40 گرام کستوری حاصل ہوتی ہے۔جس کی قیمت 4 سے 5 لاکھ ہوتی ہے۔
اگر خالص کستوری کو سونگھا جائے تو ناک سے خون جاری ہو جاتا ہے۔
👈کستوری ہرن musk deer
یہ ہرن نپیال، بھارت، پاکستان، ،روس ، چین، ،افغانستان جاپان بھوٹان اور منگولیا میں پایا جاتا ہے
۔کستوری حاصل کرنے کے لئےعام طور پر ہرن کو مار دیا جاتا ہے ۔اور غدود جو کہ کستوری تھیلی کہلاتی ہے اسے جلدی سے ہرن کے جسم سے الگ کر لیا جاتا ہے ۔ کستوری تھیلی سےسرخی مائل بھورے رنگ کا کریمی مادہ نکلتا ہے جو سوکھ کر کالے دانوں میں تبدیل ہو جاتا ہے جنہیں کستوری دانے کہا جاتا ہے۔پھر اسے مختلف عرقوں میں ملا کر بہترین عطر تیار کیے جاتے ہیں ۔
کستوری صرف نر ہرن میں پائی جاتی ہے ۔جوکہ umbilical cord یعنی ناف (سُنڈی) کے ایک غدود (gland) میں موجود ہوتی ہے۔اس سے خوشبو نکلتی رہتی ہے۔کستوری کی خوشبو کا اصل مقصد مادہ ہرن کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔
کستوری ہرن کی 7 نسلیں ہیں۔جوکہ مختلف ممالک میں پائی جاتی ہیں۔
، ختن، (چین) کا ایک علاقہ ہے، جہاں کے ہرن کستوری ہرن بہت مشہور ہیں جن کے نافوں سے اعلٰی قسم کا مشک نکلتا ہے۔
کستوری نر ہرن کے دو بڑے دانت ہوتے ہیں جوکہ ڈریکولا کے دانتوں طرح ہوتے ہیں۔مادہ میں بڑے دانت نہیں ہوتے۔ اس ہرن کا سائز کتے جتنا ہوتا ہے۔اس ہرن کی دم انتہائی چھوٹی ہوتی ہے۔
- نوٹ 👇
پاکستان میں کستوری ہرن وادیِ نیلم، گلگت, بلتستان ، ہزارہ، دیوسائ میں گھنے اور دشوار گزر جنگلات میں پایا جاتا ہے۔
یہ ایک انتہائی نایاب ہرن ہے۔مسلسل شکار کی وجہ سے اس کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔دنیا کہ کئی ممالک سے بلکل ختم ہو چکی ہیں۔اور اکثر ممالک میں ان کی نسل شدید خطرے سے دوچار ہے۔۔افغانستان میں اس ہرن کی نسل 1947 سے ناپید ہو چکی ہے۔باقی ممالک خاص طور پر پاکستان میں ان کا شکار بیدردی سے جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگلے چند سالوں میں یہ نایاب ہرن پاکستان سے ختم ہو جائے گا۔اللہ نہ کرے۔
نوٹ 👈چین اور جاپان میں کستوری ہرن کے فارم ہیں یہ لوگ ہرن کی سرجری کر کے کستوری نکال لیتے ہیں۔،جس سے ہرن کو مارنا نہیں پڑتا اور ایک ہی ہرن سے ہر سال کستوری حاصل کی جاتی ہے۔
مشک بلاؤ civet cat
ایک قسم کا جنگلی بلاو جس سے خوشبو آتی ہے ۔اس کا سائز عام بلی کے برابر ہوتا ہے.جنوبی اشیا ،جنوب مشرقی اشیا ،اور افریقہ میں پایا جاتا ہے ۔پاکستان میں یہ ایک بہت ہی نایاب نسل ہے ۔زیادہ تر گھنے جنگلات میں انسانوں کی پہونچ سے دور علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔۔یہ گوشت اور پھل کھاتا ہے۔ انسانوں کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا اور نہ ہی اس کی اتنی جرت ہے ۔بشرط یہ کہ ان کو زیادہ تنگ نہ کیا جاے ۔
پاکستان میں یہ دریاوں کے قریب موجود گھنےجنگلات میں پاے جاتے ہیں اور جوڑوں کی صورت میں رہتے ہیں ۔۔دریاے راوی دریاے سندھ ، دریاے چناب،شمالی علاقہ جات ، لاہور اور ایبٹ آباد کے ارد گرد کے جنگلات میں ان کے موجود ہونے کی اطلاعات ہیں ۔۔۔ اگر آپ میں سے کسی نے اسے دیکھا ہے تو کمینٹ میں علاقے کا نام ضرور بتائیں ۔
یہ زیادہ تر رات کو باہر نکلتے ہیں ۔دن میں زمین کے نیچے گور (سراخ) بنا کر چھاپے رہتے ہیں ۔
اس کا وزن 5•1 سے 5 کلو گرام تک ہوتا ہے ۔۔اس کی تقریبن 20 کے قریب اقسام ہیں ۔یہ بلی اور نیولے سے ملتا جلتا جانور ہے ۔اکسر اسے civet cat کہا اور لکھا جاتا ہی ۔باز جگہہ اسے بڑا نولا بھی لکھا ہوا ہے ۔لیکن اس کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ ایک علیحدہ species ہے ۔
انڈونیشیا میں اس کے فضلے سے نکلنے والے کوفی کے بیجوں کو اکٹھا کر کے ان سے کوفی بنائ جاتی ہے ۔یہ کوفی بہت ہی پسند کی جاتی ہے ۔اور کافی مہنگی ہوتی ہے ۔
اود بلاؤ otter اور مشک بلآؤ سے حاصل ہونے والا خوشبودار مادہ جندبیدستر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔جو کہ کستوری کے طور پر استمال کیا جاتا ہے۔💊حکمت میں اسکو "جُند بیدَستر ،عربی اور فارسی میں آش سگ آبی سندھی میں لدھڑے جاخصیہ،
یونانی زبان میں " کستور " جبکہ انگلش میں کیستوریم کہا جاتا ہے۔۔
اصل میں یہ 👆 دونوں یونانی اور انگریزی الفاظ سنسکریت کے لفظ کستوری سے نکلے ہیں۔۔
اود بلاو سے حاصل ہونے والی کستوری کی پیداوار کے لئے مغربی روس ، سائبیریا، کینڈا اور شمالی امریکہ کے ممالک سرفہرست ہیں۔
اس جانور کو سگِ آبی- اُود بلاؤ کہتے ھیں.
تصویر میں سب سے نیچے جو دو تھیلی نما چیزیں دکھائی دے رہی ھیں، دراصل یہی وہ چیز ھے جو طبِ یونانی اور ھومیو پیتھی میں استعمال ھوتی ھے-
یہ تھیلیاں نر اور مادہ دونوں کے pelvic region میں دم کی نچلی سائیڈ پر جلد کے اندر پائی جاتی ھیں- ایک جانور میں یہ تھیلیاں صرف ایک جوڑی کی شکل میں ہوتی ہیں۔ تھیلیوں کے اندر ایک گاڑھا سیال خوشبودار مادہ ھوتا ھے ۔تھیلیوں کو جسم سے کاٹ کر سکھا لیا جاتا ہے ۔ تازہ غدود زردی مائل ہوتے ہیں۔مگر خشک ہو کر سیاہی مائل ہو جاتے ہیں۔
- ذائقہ ۔ پھیکا ۔ خوشبودار۔
- مزاج ۔ گرم خشک۔
- قیمت 15 ہزار روپے کا 1 گرام ۔۔
بعض لوگ جانوروں کا خون خشک کر کےاسے بطور کستوری فروخت کرتے ہیں۔
جب آپ جیسے معصوم لوگ کشمیر یا مری والی سائیڈ پر جاتے ہیں تو وہاں کچھ لوگ کستوری سڑکوں پر فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔۔ان لوگوں سے بچیں یہ سب فروڈ کرتے ہیں ۔۔۔
اس کے علاوہ مصنوی کستوری بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔لیکن یہ پاکستان ہے یہاں تو ہر چیز اصلی ہے۔۔چناچہ مصنوئی کستوری بھی یہاں اصلی کستوری یا تھوڑے سے کم ریٹ پر دستیاب ہے۔
اس کا استمال سینٹ اور عطر بنانے میں کیا جاتا ہے۔۔
- نوٹ 👇
یہ قوتِ باہ کی دواؤں میں کثرت سے استعمال ھوتا ھے-
مرد حضرت کو بڑا شوق ہوتا ہے کستوری خریدنے کا۔ویسے بھی پاکستانی عوام کو مردانہ کمزوری کے نام پر جو مرضی کھلا دو یہ کھا لیں گے۔کچھ مہربانی کرو یار ان فروڈ حکیموں سے بچو اور اپنا پیسا اور صحت بھی بچاؤ ۔یہ فروڈ ہیں..زیادہ تر 90% لوگ بس احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں انھیں کوئی کمزوری نہیں ہوتی ۔اگر واقع کسی کو ہو بھی تو testosterone' hormone کا انجیکشن لگوا لو سیٹ ہو جاؤ گے۔۔
خود کشی کرنے سے اچھا ہے کہ کسی اچھے سے ڈاکٹر کو چیک کرا لیا کرو۔یہ کوئی اتنا پیچیدہ مسلہ بھی نہیں ہے جتنا عوام نے سمجھ رکھا ہے۔
تحریر ۔ ڈاکٹر شیخ متین ۔
if you like this please follow me and leave a comment...
ReplyDeleteTHANK YOU...